مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سیکریٹریٹ نے رکن ممالک کو ایک نوٹ بھیجا ہے جس میں قرارداد 2231 کے ضمیمہ بی کی شق 3، 4 اور 6 کو بشمول میزائل تجربات کے لئے ایران کو پارٹس کی برآمد اور درآمد نیز سلامتی کونسل کی پابندیوں کے تحت ایرانی افراد اور اداروں کو املاک ضبط کرنے اور مالی خدمات فراہم کرنے سے متعلق پابندیوں کو باضابطہ طور پر ختم کردیا گیا ہے۔
قرارداد 2231 کے ضمیمہ B کی دفعات کے مطابق یہ پابندیاں JCPOA (18 اکتوبر 2023) کے نفاذ کے 8 سال بعد تک جاری تھیں جو بالآخر کل رات کو از خود ختم ہو گئیں۔
مذکورہ پابندیوں کی منسوخی اس وقت عمل میں آئی جب حالیہ برسوں میں امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ان پابندیوں کو جاری رکھنے کے لئے بین الاقوامی برادری میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے وسیع سیاسی اور قانونی کوششیں کی گئیں۔ جس کا نتیجہ بالآخر ان ممالک کی سیاسی اور قانونی ناکامی کی صورت میں نکلا۔
سلامتی کونسل کی سابقہ قراردادوں کو منسوخ کرتے ہوئے مذکورہ پابندیاں باضابطہ طور پر ختم کر دی گئیں۔ مزید برآں، مذکورہ تبدیلیوں کا اطلاق رات 12:00 بجے سے اقوام متحدہ کی ویب سائٹ اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی مربوط فہرست پر کیا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب کو لکھے گئے ایک الگ خط میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی نائب روزمیری ڈی کارلو نے مذکورہ بالا دفعات کے خاتمے اور ایرانی افراد اور اداروں کو سلامتی کونسل کی فہرست سے نکالنے کی تصدیق کی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی دیگر بین الاقوامی پابندیاں پہلے JCPOA کے نفاذ کے دن ختم کردی گئیں اور اس کے بعد اکتوبر 2020 میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق روایتی اور ہلکے ہتھیاروں پر پابندی عائد کردی گئی۔ 18 اکتوبر 2023 کو باقی ماندہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد، اقوام متحدہ میں ایرانی افراد اور اداروں سے متعلق تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ ان پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دیے جانے کے باوجود مغربی ممالک نے اتحادی ممالک کے ایک محدود گروپ کی جانب سے بیان جاری کر کے مذکورہ عمل کو حتمی شکل دینے پر شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی تاہم پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دی گئی۔
آخر کار اقوام متحدہ کی طرف سے مذکورہ پابندیوں کے خاتمے سے متعلق ایک سرکاری نوٹ پر دستخط کیے گئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے باوجود انہیں جاری رکھنے کے امریکہ اور یورپی ممالک کے دعوے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔
اگرچہ بین الاقوامی مبصرین ایرانی حکومت کے تعلقات اور فوجی تعاون کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے مغربی ممالک کی قومی صلاحیت پر ان پابندیوں کے جاری رہنے کو خالصتاً علامتی اقدام سمجھتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ